اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ استادِ جامعہ اور تزویری امور کے ماہر ڈاکٹر حمید رضا مقدم فر نے فارس خبر ایجنسی کے لئے اپنی یادداشت میں کورونا وائرس کے انسداد کے لئے مغربی ممالک کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے موجودہ صورت حال کو عالمی نظام کے تزلزل کا آغاز قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
اول: بڑی جنگیں اور گہرے بحران تاریخ میں ہمیشہ طاقتوں کی ترتیب و انتظام میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بنتے آئے ہیں؛ یا یوں کہئے کہ یہ واقعات اور بحران عالمی نظام میں گہری تبدیلیوں کا باعث ہوئے ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں نے دنیا کے روابط اور قواعد کو بدل کر رکھ دیا جنہیں ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں ان جنگوں کی فاتح قوتوں کی طاقت کے استحکام اور تقویت کی غرض سے بہت سے ادارے اور فاؤنڈیشنوں کی بنیاد رکھی گئی جن کو "عالمی" اور "بین الاقوامی" جیسے خطابات دیئے گئے۔ بڑے بحرانوں نے بھی بڑی تبدیلیوں کو جنم دیا ہے؛ بیسویں صدی میں مغرب میں دو بڑے معاشی بحرانوں نے دو ختلف قسم کے سیاسی-معاشی مکاتب کو اگلے کئی عشروں تک دنیا پر مسلط کیا؛ 1930ع سے 1940ع تک جاری معاشی بحران ـ جس نے کینزی معاشیات (Keynesian economics) کو نمایاں کردیا اور پھر 1970 سے 1980 تک کے بحران میں کینزی معاشیات کو پیچھے ہٹنا پڑا اور نولبرلوں (Neo-liberals) کو تقویت میلی اور یہ صورت حال تقریبا 2008-2009 کے معاشی بحران تک جاری رہی۔
ایسے بہت سی واقعات اور روئیدادوں کو اس فہرست میں جگہ دی جاسکتی کہ ان میں سے ہر ایک دنیا کے بہت بڑے واقعات پر کلاں مسائل پر اثر انداز ہوا ہے؛ سوویت اتحاد کی شکست و ریخت ـ جس نے کچھ عرصے تک دو قطبی دنیا کو یک قطبی دنیا میں بدل دیا؛ 33 روزہ جنگ ـ جس نے پہلی بار عرب ممالک پر پےدرپے فتوحات کے بعد، خفیف و رسوا کردیا مغربی ایشیا [مشرق وسطی] کے نظامات کو بدل کر رکھ دیا؛ وہی مغربی ایشیا جس نے ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دنیا کے بھر کے معاملات میں گہری ردوبدل کے علاوہ ، تاریخ کے عمل اور بین الاقوامی نظم و نسق کو ایک زبردست جھٹکوں سے دوچار کیا ہے۔ عراق میں عین الاسد کے امریکی فوجی اڈے پر میزائل حمل، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ پر کسی ملک کا پہلا باضابطہ حملہ شمار ہوتا ہے، اسی مسئلے کا رساؤ اور اسی کا ایک پہلو ہے۔
دوئم: 125 نینو مائکرون (Nano-micron) کے کورونا وائرس نے دنیا کو ایسی حالت سے دوچار کیا ہے کہ اب دنیا یکبارگی سے کلاں تبدیلی کے لئے ضروری تمام بحرانوں اور مسائل کے تجربے سے گذر رہی ہے۔ ایک ہمہ جہتی عالمی جنگ ہے؛ کیونکہ اس وقت دنیا کے 205 ممالک میں سے 205 ممالک اس وائرس کا مقابلہ کررہے ہیں اور تاریخ میں ایسی ہمہ گیر جنگ کی مثال نہیں ملتی؛ دوسری عالمی جنگ میں بمشکل 30 ممالک براہ راست جنگ لڑ رہے تھے چنانچہ کورونا کے خلاف جنگ ہر لحاظ سے انوکھی اور منفرد جنگ ہے۔ کورونا نے صحت اور حفظان صحت کو درپیش مسئلے کے علاوہ، لبرل، نولبرل حتی کہ سوشلسٹ وغیرہ وغیرہ جیسے تمام تر اقتصادی مکاتب کی معیشت کو بھی نہایت خطرناک صورتحہل سے دوچار کردیا ہے۔ کورونا نے ایک غیر ارادی تجارتی مقاطعہ اور محاصرہ پوری دنیا پر مسلط کیا ہے، یوں کہ تقریبا تمام ملکوں نے کورونا کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اپنی زمینی، فضائی اور بحری سرحدوں کو ایک دوسرے پر کافی مدت تک کے لئے بند کردیا ہے۔ اس وائرس نے ثقافتی اور سماجی لحاظ سے بھی کافی تبدیلیوں کے اسباب فراہم کردیئے ہیں جن کی طرف اگلی سطور مین اشارہ ہوگا۔
بہرصورت، اس وقت ہمیں ایسی صورت حال کا سامنا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس اعلان کرتے ہیں کہ "اقوام متحدہ کو اپنی تشکیل سے لے کر اس طرح کے عظیم اور وسیع بحران کا سامنا نہيں کرنا پڑا تھا" اور دنیا کے بہت سے مفکرین "عالمی نظم و نسق میں بعض بہت بڑی تبدیلیوں کے سنجیدہ امکان" کا عندیہ دے رہے ہیں۔
سوئم: عالمی نظم و نسق میں بڑی تبدیلیوں کے امکان کو فرض کیا جائے تو اس سے بھی زیادہ بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس تبدیلی کے خد و خال کیا ہونگے؟ عالمی طاقت کے مرکز کی مغرب سے مشرق کی طرف منتقلی کی باتیں تو عرصے سے ہورہی ہیں لیکن راقم کی پیش گوئی یہ ہے کہ طاقت کی اس منتقلی کی شدت میں اضافہ اور رفتار میں تیزی آئے گی؛ فرق صرف یہ ہوگا کہ اس بار مغرب میں طاقت کی تنزلی جوزف نائے (Joseph Nye) کے نظریئے کے موافق نہیں ہوگی جن کا کہنا تھا کہ طاقت کی منتقلی کے باوجود مغربی تہذیب قائم رہے گی اور استحکام برقرار رہے گا، بلکہ مغربی تہذیب بھی اپنے آپ کو شدید خطرہ میں گھرا ہوئے دیکھے گی اور اس کا استحکام بھی باقی نہیں رہ سکے گا۔ اگرچہ ہم جوزف نائے کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مشرق بھی بہت سے امور و معاملات میں مغرب کی تقلید کرکے تہذیب سازی کی صلاحیت کافی حد تک کھو چکا ہے اور اس کی طاقت بعض عسکری اور مادی امور تک محدود ہوگی، لیکن یہ اتفاق رائے مغرب کے حقیقی اور نہایت اہم تہذیبی رقیب کے لئے راستہ کھول دے گا اور ماحول فراہم کرے گا جو بلا شک "اسلامی تہذیب" ہی ہے جس پر الگ سے تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔
سوال: مغربی تہذیب کے زوال کا سبب کیا ہوگا؟
جواب:
الف: سائنس اور خود زائیدہ (self-created) انسان کا تزلزل
جدید سائنس مغرب کا سب سے بڑا تہذیبی سہارا ہے۔ اور ـ رائج تصورات کے برعکس ـ مغربی خودمختار اور خودساختہ انسان کی بنیاد پر استوار مغربی مابعدالطبیعات (Western Metaphysics جسے ہم کچھ رعایت دے کر مغرب کی انسان پرستی Humanism کہہ سکتے ہیں) نے مغرب کی سائنسی اور تکنیکی (Technological) ترقی کی بنیاد رکھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ مغربی مابعدالطبیعیات ان کی طبیعیات ہی سے جنم لیتی ہے اور یہ طبیعیات یا فزکس سے ان کی طرف کے اخذ کردہ جلدبازانہ اور ناروا نتائج ہیں جو اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ طبیعیات کے شعبے میں گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei) کی دریافتوں کے بعد مغرب نے تصور کیا کہ وہ خدا کو بھی بڑی آسانی سے اس جہان کے امور و معاملات سے حذف کرسکتے ہیں۔ اس مغربی انسان نے سائنسی لحاظ سے ترقی کی بہت سی چوٹیوں کو سر کیا اور شدید غرور و تکبر سے دوچار ہوا؛ یہاں تک کہ اس نے تاریخ کے اختتام (End of History) تک کا اعلان کیا! لیکن ایک 125 نینو مائکرون (محض ایک سلمے [molecule] کے برابر) کے کورونا وائرس نے اس کو یاددہانی کروائی کہ "کارِ عالَم اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے کہ جدید انسان اس کا تصور کرسکے۔
میری ان باتوں کا مطلب سائنسی ترقی کی ناقدری نہیں ہے؛ بلکہ یہ ترقی اور پیشرفت بہت قابل قدر ہے اور جو شخص حقیقی علم و سائنس کی مخالفت کرتا ہے وہ درحقیقت علت و معلول (cause and effect) پر مبنی کائنات کے نظامات کے خلاف نبرد آزما ہے؛ تاہم یہاں ہماری بحث کا موضوع وہ جاہلانہ مابعدالطبیعیانی نتائج ہیں جو وہ ان قابل قدر طبیعی اور سائنسی ترقیوں سے اخذ کرتے ہیں۔
اگرچہ اسی سائنس نے طاعون جیسی بہت سی بیماریوں کو لگام دی ہے لیکن مغربی انسان آج اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ اگر طے یہی تھا کہ خودساختہ، خودمختار اور جدید مغربی انسان خدا کی جگہ لے لے، تو یہ کیا ہے کہ اتنے چھوٹے وائرس سے عاجز ہوکر مغرب کی مادی دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کی کابینہ مجبور ہوکر خدا کے پکار رہی ہے اور پوری کابینہ ہاتھ اٹھا کر اللہ کی درگاہ میں دعا کا اہتمام کرتی ہے [یا پھر ٹرمپ کی جان کی حفاظت کے لئے مراکش سے جادوگروں کو بلایا جاتا ہے جو وائٹ ہاؤس میں واقع صدر کے دفتر میں نائب صدر اور فوجی جرنیلوں کی موجودگی میں منتر جنتر پڑھتے ہیں اور اس کی ویڈیو بھی وائرل کی جاتی ہے]؟
یہ بھی کہا جاسکتا ہے سائنس کورونا وائرس پر بھی غلبہ غلبہ پائے گی اور جدید انسان اس پر بھی غالب آئے گا، اور یوں سائنس کی منزلت میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ اس نئی پیشرفت سے حاصل ہونے والی مابعدالطبیعیات کو بھی تقویت ملے گی اور خدا کے معاشرے سے حذف کرنے کے رجحاں میں مزید شدت آئے گی؛ لیکن یہ بڑی مبالغہ آرائی ہے، کیونکہ حتی اگر کورونا پر قابو بھی پایا جائے ـ اور ہمیں یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا اور کورونا وائرس پر قابو پایا ہی جائے گا ـ تو بھی مستقبل میں آنے والی ممکنہ بلاؤں اور وباؤں کا خوف کھی بھی بنی نوع انسان کے دل سے نہیں نکلے گا اور یہی مسئلہ دنیا میں بڑے بڑے واقعات کو جنم دے گا۔
آنے والی مابعدالطبیعیاتی نہایت عظیم تبدیلی جو شاید 500 برسوں میں (گیلیلی اور نیوٹن) کے بعد پہلی بار معرض وجود میں آئے، جو نہایت بڑی معاشی، سماجی، ثقافتی تبدیلیوں کے اسباب فراہم کرسکتی ہو۔
ب: معاشی تزلزل
کورونا وائرس نہ صرف ممالک کی معیشت ـ بلکہ مختلف معاشی اداروں اور مکاتب ـ کو بہت شدید مشکلات و مسائل سے دوچار کرے گا۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ واضح ہوچکا کہ فنڈ اور پیسوں سے متعلق عالمی ادارے بحرانوں کے دوروان اقوام عالم کے لئے کوئی خاص افادیت نہیں رکھتے، مغرب کے امیر ممالک کی معیشت میں ظہور پذیر ہونے والا تزلزل بھی ان کے شکوہ و جلال کو ماضی سے کہیں زیادہ مسخ کرے گا۔ دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور مادی معیشت کے طور دنیا کی خام گھریلو پیداوار (GDP) میں پر امریکہ حصہ سب سے بڑا ہے، لیکن اس معیشت کو کورونا وائرس کی وجہ سے ایسی صورت حال کا سامنا ہے کہ اخبار نیویارک ثائمز کے مشہور کالم نگار تھامس فریڈمین (Thomas Friedman) کہتے ہیں کہ آج اس امریکہ کو ایک بڑا انتخاب کرنا پڑ رہا ہے: یا سماجی صحت کے شعبے میں بھاری قرنطینہ اور عظیم معاشرتی سخت گیریوں کی وجہ سے اس معیشت کو دیوالیہ ہونے دے یا پھر معیشت کو تحفظ فراہم کرے اور عوام کو کورونا میں مبتلا ہوکر مرنے دے! اتنی ہی سادگی سے، دنیا کی سب سے طاقتور مغربی معاشی طاقت کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
امریکہ میں بعض نمونہ سازیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم ایک لاکھ سے دو لاکھ افراد اس عمل کے دوران کورونا کی وجہ سے جان کی بازی ہار جائیں گے۔
انتہائی نازیبا انداز میں، ان میں سے ہر ایک ملک دوسرے ملک کے ماسکوں کی کھیپ چوری کررہا ہے، جمہوریہ چیک نے اٹلی کی کھیپ چوری کرلی، پولینڈ نے ناروے کی کھیپ اور فرانس نے اسپین اور اٹلی کی کھیپ چوری کی ہے [اور امریکہ کے بڑے چور جنوب مشرقی ایشیا میں بیٹھ کر چین سے خریدے ہوئے فرانس، اٹلی اور اسپین کے ماسکوں سے بھرے طیاروں پر قبضہ کرتے ہیں اور تین سے چار گنا قیمت ادا کرکے طیاروں کا رخ امریکہ کی طرف کرتے ہیں۔ اتحاد اور بھائی چارے کے صدیوں پر محیط دعؤوں کا نقاب مغرب کے چہرے سے اتر گیا]۔
ج: مغرب کی ثقافتی اور معاشرتی مرکزیت اور من حیث المجموع مغربی ترقی کے تصور کا تزلزل:
اگرچہ کورونا سے جنم والا معاشی بحران پوری دنیا کے لئے محسوس اور ملموس ہے، لیکن مغرب میں کورونا وائرس کی وجہ سے پیش آنے والا ثقافتی اور سماجی بحران بہت زیادہ گہرا اور بامعنی ہے۔ لوٹ مار، جنگ جھگڑے، دکانوں اور سوپر اسٹوروں کا طبی ضروریات اور اشیاء خورد و نوش سے خالی ہوجانا وغیرہ وغیرہ، اس ماجرا کا ای جزوی حصہ ہے؛ اس مسئلے کی گہرائی میں اضافہ اس وقت ہوتا ہے کہ امریکہ کا ماڈرن انسان کورونا کے عظیم خطرے کے وقت منطقی تفکر کا سہارا لینے اور سماجی باہمی تعاون سے اس بحران کو سر کرنے کے بجائے اسلحہ خریدنے کا اہتمام کرتا ہے اور گھر میں اسلحے کا انبار لگاتا ہے تا قحط کی صورت میں پڑوسی کو مار کر اپنے بچاؤ کا انتظآم کرسکے اور پڑوسی کو قتل کرکے خود زندہ رہ سکے۔
زیادہ تر مغربی ممالک میں اعلان ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو بچانے کے لئے معمر مردوں اور عورتوں کو کورونا بے یار و مددگار چھوڑنا پڑے گا، [اٹلی میں 65 سال سے زائد عمر کے افراد کے علاج کو غیر ضروری قرار دیا جاتا ہے، امریکہ میں کچھ مشیران حکومت سے کہہ دیتے ہیں کہ بوڑھے مریں گے تو پنشن کی مد میں خرچ ہونے والے بجٹ کی بچت ہوجائے گی اور برطانیہ میں کہا جاتا ہے کہ معذور افراد نیز خطرناک بیماریوں میں مبتلا افراد ایمبولینس کے لئے رابطہ نہ کریں کیونکہ ان کا علاج نہیں ہوگا]۔
سماجی رابطے کی ویب گاہوں میں میں شائع ہونے والی تصاویر سے معلوم ہوا کہ ڈنمارک، ناروے اور آسٹریا جیسے ممالک ـ جنہیں طویل عرصے سے دنیا کے خوشحال ترین ممالک کے طور پر دنیا والوں کو متعارف کروایا جاتا تھا اور ان کا گرز بنا کر دنیا کے غیر مغربی انسانوں کے سر پر مارا جاتا تھا ـ کس طرح آپس کے تنازعات اور خودپرستیوں کے ذریعے بحران کی گھڑی میں اپنے چہروں سے تہذیب کا نقاب نوچھ لیتے ہیں۔
یہ سارے واقعات و حقائق اخلاقی لحاظ سے مغربی انسان کے زوال کی علامت ہے یا کم از کم یہ بات ضرور واضح ہوچکی ہے کہ جدید مغربی انسان کے سلسلے میں عالمی تصور متزلزل ہوچکا ہے؛ علاوہ ازیں ایک زیادہ اہم حقیقت بھی ان مصداقوں کے پس پشت چھپی ہوئی ہے جو مغرب کی "مضحکہ خیز اور غیر متوازن ترقی" ہے۔ امریکہ جو فوجی لحاظ سے بھی اور تکنیکی طاقت کے لحاظ سے بھی دنیا میں پہلی اور آخری بات کرنے کا دعویدار ہے؛ لیکن صحت اور حفظان صحت کے سلسلے میں ـ جو میزلو کے سلسلہ مراتبِ ضروریات (Maslow's hierarchy of needs) کے مطابق سب سے اہم شعبہ ہے ـ ایک قوم کی کی سب سے نچلی سطح پر واقع ہوا ہے۔ امریکہ کے بعض اہلکاروں کے مطابق یہ ملک دوسرے اور تیسرے درجے کا ملک ہے؛ اور صورت حال یہ ہے کہ مفکرین اور سیاستدان امریکہ کے اندر ہی، اعتراف کرتے ہیں کہ امریکہ اس لحاظ سے تیسری دنیا کا ملک ہے۔ بہت سے یورپی ممالک بشمول فرانس، اٹلی، [برطانیہ، سپین، سوئیٹزرلینڈ اور ہالینڈ] میں صورت حال ایسی ہی ہے اور یہ سارے حقائق باعث بنتے ہیں کہ انسان بحیثیت انسان مغربی ترقی کے حوالے سے بدگمان ہوجائے۔
حالانکہ مغربی ممالک حالیہ عشروں کے دوران اپنی ترقی کی بعض خصوصیات کی تشہیر کرکے ثقافتی، سماجی، جغرافیائی اور تاریخی شعبوں میں دوسری قوموں سے بھاری اور نہایت بیش بہاء رعایتیں لوٹ کر ہتھیاتے رہے ہیں؛ اور وہ یوں کہ مغربی ممالک بھی اور مغرب نواز قوتیں بھی کہتی رہیں کہ "ترقی بعینہ وہی چیز ہے جو مغرب میں وقع پذیر ہوئی ہے اور اس ترقی تک رسائی مغربی ترقی کے مدار میں قرار پانے کی صورت میں ہی ممکن ہے چنانچہ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے ہر قوم کو اپنی اقدار اور اپنے قومی تشخص سے ہاتھ کھینچنا پڑے گا، اپنی آزادی کو خیر باد کہنا پڑے گا، اپنی ثقافت کو ترک کرنا پڑے گا حتی کہ اپنی جغرافیائی حدود کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑے گا۔
مغربی طرز کی ترقی کی پوزیشن میں نہایت سنجیدہ اور گہرا تزلزل مستقبل کی نہایت اہم تبدیلیوں کا سرآغاز ہوسکتا ہے۔
د: مغرب کی انتظامی مرکزیت میں تزلزل:
اگرچہ کورونا کا بحران ایک بڑا اور عالمگیر بحران ہے اور صرف مغرب تک محدود نہیں ہے لیکن کم از کم آج ایک غیر مغربی انسان مغربی حکمرانوں کے رویوں کو دیکھ رہا ہے اور اس کو اس لمحے تک بدنظمی سراسیمگی ـ اور بعض تجزیہ نگاروں کے بقول مضحکہ خیزی اور مسخرہ پن ـ کے سوا کچھ بھی نظر نہيں آرہا ہے۔ مغربی تہذیب کی علامت "ڈونلڈ ٹرمپ" نے ابتدائی دنوں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا مذاق اڑایا اور لوگوں سے مصافحہ نہ کرنے سمیت ڈاکٹروں اور ماہرین صحت کی ہدایات کو یکسر نظرانداز کیا؛ لیکن جس اس بحران کے حقائق کا سامنا ہوا تو اس نے مجبور ہوکر اس کو سنجیدہ لیا اور امریکی عوام کو امید دلوانے کے بجائے البتہ اس نے ان سے مخاطب ہوکر کہا کہ "میرے ہموطنو! تم بہت دردناک ہفتوں کو دیکھوگے اور ممکن ہے کہ کئی لاکھ لوگ مر جائیں، تم کیا یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہے ہو!"۔ ادھر یورپی ممالک میں بھی صورت حال کسی طور بھی اس سے بہتر نہیں ہے۔
یورپ میں بحران یورپ میں اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ وہاں کی اقوام اور عام یورپی انسان "واحد یورپ" اور "یورپی اتحاد" کے سلسلے میں بھی سنجیدہ تذبذب کا شکار ہوچکے ہیں؛ اور بعض مغربی تجزیہ نگاروں کے خیال میں "یورپی اتحاد میں دراڑ پڑنا اور اس اتحاد کی شکست و ریخت" بعد از کورونا دور کا ممکنہ نتیجہ ہوسکتی ہے۔
چہارم: ممکن ہے کچھ لوگ کہہ دیں کہ اگر مغرب کورونا کو لگام دینے میں کامیاب ہوجائے، اس کے لئے ویکسین تیار کرے، یا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس امریکہ کی حیاتیاتی جنگ کا ایک ہتھیار ہے، چنانچہ کرونا کے بعد کے دور میں مغرب زیادہ طاقتور ہوجائے گا۔ لیکن یہ استدلال جامع اور غائرانہ نہيں ہے، کیونکہ جیسا کہ تیسرے موضوع کی شق الف میں بیان ہوا کہ اگر مغرب اس قابو پا بھی لے، پھر بھی سائنس کے مغربی تصور کو جو دھچکہ لگا ہے وہ اپنی جگہ باقی رہے گا اور یہی مسئلہ بدستور بڑی تبدیلیوں کے اسباب فراہم کرسکتا ہے۔
علاوہ ازیں خواہ کورونا پر مغرب کے قابو کی صورت میں، خواہ کورونا کے بطور حیاتیاتی ہتھیار، ثابت ہونے کی صورت میں، مغرب کی اخلاقی شان و شوکت یا تو پوری طرح خاک میں مل جائے گی یا پھر شدت سے متاثر ہوجائے گی جس کے نتائج تہذیب و تمدن نتائج پر ضرور مرتب ہونگے۔ جس طرح کہ تاریخِ تمدن (The story of civilization) کے ماہرین بشمول برطانوی مؤرخ، استاد جامعہ اور سفارتکار آرنلڈ جوزف ٹائن بی (Arnold Joseph Toynbee) نے بھی کہا ہے کہ اخلاقی سرمایہ اور اخلاقی جاہ و جلال ہر تہذیب کا اہم ترین ستون ہے اور جس زمانے میں مغربی انسان دیکھ رہا ہو کہ اخلاقی عمل کس صورت حال سے گذر رہی ہے، بالخصوص یہ کہ اس نے ایک مہلک وائرس بھی بنی نوع انسان کو نشانہ بنانے کے لئے ایک مہلک وائرس بھی تیار کر لیا ہو! یہ تزلزل اور بھی زیادہ بھاری اور ناقابل برداشت ہوگا۔
پنجم: اگر کوئی کہے کہ: اگر ہم ان تمام مسائل کو قبول بھی کریں، تو اس کا بطور مثال ایران [جیسے ملک کو] کو کیا فائدہ ہوگا؟ ایران [یہ ایران جیسا کوئی ملک] خود بھی کورونا کا سامنا کررہا ہے اور اس بحران کے اندر واقع ہوا ہے اور یقینی طور پر اس کی اپنی معیشت بھی متاثر ہوگی۔
اولاً: تو پہلی بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا ترتیب سے آنے والے موضوعات اور ان پر بحث کورونا کے بعد کے ایران [اور حتی کہ مشرقی ممالک] کا جائزہ لینے کے لئے نہیں ہے اور اس موضوع کا تجزیہ کرنے کے لئے دوسری معطیات [اور معلومات] کی ضرورت ہوگی۔ ثانیاً: مختلف دلائل اور شواہد کی رو سے ـ اگر اللہ کے فضل سے کوئی خاص مسئلہ پیش نہ آیا تو ـ بعض ہموطنوں کے دنیا سے رخصت ہونے سمیت تلخ واقعات کے باوجود، ان شاء اللہ ہماری صورت حال آج کی نسبت بہت بہتر ہوگی؛ کیونکہ ایرانی معیشت متعدد وجوہات کی بنا پر دوسرے ممالک سے کم متاثر ہوگی۔ کورونا کے زمانے کی معیشت کی اہم ترین خصوصیت بین الاقوامی تعلقات کے محدود ہوجانے اور تیل کی قیمتیں عجیب انداز سے گرنے سے عبارت ہے۔ اگرچہ یہ صورت حال اکثر ممالک کے لئے بالکل نئی اور غیر متوقع ہے لیکن ایران عشروں سے بالکل اسی طرح کے مسائل سے دوچار ہے اور امریکہ اور اس کے حلیفوں نے اس پر پابندی لگائی ہے۔
ایران امریکہ اور اس حلیفوں کی پابندیوں کی وجہ سے بہت کم تیل برآمد کرتا ہے چنانچہ تیل کی قیمتیں گرنے سے بھی ایران کو بہت کم نقصان پہنچے گا؛ چنانچہ اندرون ملک بہتر انتظام ہو ـ گوکہ ایران کو بھی بہت سے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا ـ لیکن یہ ملک دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم متاثر ہوگا؛ کیونکہ کورونا سے بہت پہلے امریکہ اور یہودی ریاست نامی وائرسوں نے ایران کو کورونا جیسی رکاوٹیں ایران کے آگے کھڑی کی تھیں۔
تاہم ثقافتی، نظریاتی لحاظ سے بھی اور سماجی و ترقیاتی موضوعات کے لحاظ سے بھی، اولاً کورونا نے ثابت کر دکھایا کہ اگرچہ سائنس قابل ستائش ہے اور اس سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھانا چاہئے، لیکن مغربی سائنس سے انسان کے اخذ کردہ مابعدالطبیعیاتی نتائج اُتنے ہی جاہلانہ ہیں جتنا کہ سائنس سے بےاعتنائی اور اس کو سنگسار کرنا کا عمل جاہلانہ ہے۔
ثقافتی لحاظ سے واضح ہوگیا کہ جن حالات میں جدید انسان امریکہ میں اسلحے کے انبار لگاتا ہے، ایران-مسلم انسان ایک بےمثل ایثار و قربانی کے ساتھ مال اور جان کے ذریعے اپنے ہموطنوں کو امداد پہنچا رہے ہیں؛ اور ترقی کے لحاظ سے بھی آشکار ہوا کہ اگرچہ ایران کو ابھی بڑی ترقی اور پیشرفت تک پہنچنے کے لئے ابھی کافی مسافت طے کرنا ہے، لیکن اس کی ترقی ـ خواہ ثقافتی، اخلاقی اور سماجی لحاظ سے خواہ بنیادی ڈھانچے کے لئے ہے، جہاں صحت و حفظان صحت کا شعبہ اہم ترین شعبوں میں سے ایک ہے ـ کم از کم مختلف شعبوں میں دنیا بھر کی عدم توازن سے دوچار جعلی ترقیوں کی نسبت کہیں زیادہ متوازن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: ڈاکٹر حمیدرضا مقدم فر
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
11 اپریل 2020 - 06:58
News ID: 1024323

کوروناوائرس کے پھیلاؤ کے بعد سیاسی، معاشی اور حتی کہ سائنسی شعبوں میں عالمی نظم کا تزلزل شروع ہوچکا ہے۔